وہ دقیانوس ہیں کہ میرا کھانا پینا پہننا اوڑھنا سب اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔
میں دقیانوس ہوں کے معاشرہ کے فرسودہ نظام کے آگے آج بھی زبان نہیں کھول سکتی۔
وہ دقیانوس ہیں کہ میرا کھانا پینا پہننا اوڑھنا سب اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔
میں دقیانوس ہوں کے معاشرہ کے فرسودہ نظام کے آگے آج بھی زبان نہیں کھول سکتی۔