تم شمع بجھانا چاہتے ہو
مندر کو گرانا چاہتے ہو
مسجد سے نہ آئے صدا کوئی
ہر شور مٹانا چاہتے ہو
آدم نے چھوا جو شجرِ ممنوع
مسکرائی خلقت اور کیا استقبال یوں
بخشی کنجی نئی اک دنیا کی
تم گناہگار ٹہرانا چاہتے ہو
دو دل جو ملیں، سُر تال کھلیں
محبت جو کریں بے لوث کریں
انجام سے پہلے کیوں آخر
تم عنوان مٹانا چاہتے ہو
اے اہل زمیں ذرا یہ تو بتاؤ
کیوں خود کو تھکانا چایتے ہو؟
~ماریہ عمران